فاتح عبدالعزیز ابن سعود


فاتح عبدالعزیز ابن سعود
اُنیسویں صدی کی ابتدا میں موجوہ سعودی عرب کئی ریاستوں میں تقسیم تھا ان میں سے ایک حجاز کی ریاست تھی جس پر ہاشمی خاندان کی حکومت تھی جس کہ سربراہ شریف مکہ تھے دوسر ی بڑی ریاست نجد تھی نجد کی ریاست پر رشیدی خاندان نے ترکوں اور حجاز کے ہاشمی خاندان کی مددسے سعودی خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ کرکے اپنی حکمرانی قائم کردی تھی اس کے علاوہ بے شمار چھوٹے بڑے قبائل تھے جو کے اپنے سرداروں کے ماتحت تھے اور دنیا کی کسی بھی حکومت سے آزاد تھے ان کی حدود میں ان کا اپنا قانون اور نظام نافذ تھا نجد کے مرکز اور سعودی عرب کے موجودہ دارلحکو مت ریاض پر رشیدی خاندان کے محمد ابن رشید نے1890میں اپنے مرکز حائل سے فوجوں کو اکھٹا کرکے ریاض پر حملہ کرکے شاہ عبدالعزیز ابن عبدالرحمان ابن سعود کے والد عبدالرحمان ابن سعود سے چھین لیا تھا اس کے بعد سعودی خاندان کو نجد سے جلا وطنی اختیار کرنا پڑی اس جلا وطنی کے نتیجے میں سعودی خاندان پہلے خلیج فارس میں واقع جزیرے بحرین پر پناہ لینے پر مجبور ہو گیا اس وقت بحرین کے حاکم شیخ عیسیٰ بن خلیفہ حکمران تھے جنہوں نے سعودی خاندان کا بہت پرتپاک استقبال کیا مگر سعودی خاندان اپنی کھوئی ہوئی حکومت کی واپسی کے لئے دوبارہ سعودی عرب میں ربع الخالی کے مقام پر پہنچا یہاں پر سعودی خاندا ن نے کچھ عرصہ قیام بھی کیا مگرپھر دنیا کے اس ظالم ترین صحرا میں کچھ مدت گزار کر یہ خاندان کویت کے حکمران کے پاس چلا گیا جہاں سے کویتی حکمرانوں کی مدد سے اگر چے کہ اپنے کھوئے ہوئے مرکز کو حاصل کرنے کی کئی بار کوشش کی مگر اس میں ناکام رہا پھر نوجوان عبدالعزیز ابن عبدالرحمان ابن سعود نے ایک کامیاب حملے کے نتیجے میں ریاض پر قبضہ کرکے نئی سعودی حکومت کی داغ بیل دالی
ابن سعود کی افواج ابن متعب کی اس چال کے نتیجے میں ابن متعب کی افواج کے نرغے میں بری طرح آچکیں تھیں جب سے ابن سعود نے ریاض شہر پر قبضہ جما کر جدید سعودی عرب کی بنیاد رکھی تھی اس وقت سے اب تک ابن سعود کے لئے اس قدر مشکل کبھی بھی پیش نہیں آئی تھی اس لئے ابن سعود کے ساتھی اس صورت حا ل میں بری طرح پریشان ہوگئے کیو نکے لئے اب اس نرغے سے نکل جانا بہت مشکل ہو چکا تھا دوسری جانب ان کے لئے یہ ناممکن ہو گیا تھا کہ اپنے مرکز ریاض سے کسی طرح کا کوئی رابطہ قائم کیا جاسکے یا پھر ریاض سے مدد حاصل کی جاسکے اس وقت یہ نظر آرہا تھا کہ اب جو بھی معرکہ ابن سعود او ر ابن متعب کے درمیان ہو گا اس میں شکست ابن سعود کو ہی ملے گی کیونکہ اس وقت ہر اعتبار سے ابن سعود کی افواج ابن متعب کی ان بیس ہزار افواج کے محاصرے میں آچکیں تھیں جن کی تربیت کے لئے ابن متعب نے کئی برس کی مدت صرف کی تھی جب کہ ابن سعود کی فوج کو کسی بھی طرح کی بیرونی امداد کامل جانا مشکل تھا ۔
عبدلعزیزابن سعود نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے اور اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک انوکھی چال چلی جو کہ اس سے قبل کبھی بھی نہیں چلی گئی تھی یہ بات تو جدید دور میں تمام جنگی ماہرین کہتے اور لکھتے ہیں کہ جنگ میں تمام ہتھیاروں اور موجود وسائل کو استعمال کرنے والا ہی کامیاب رہتا ہے جیسا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران صحرا آعظم میں جرمن جرنیل رومیل نے اپنے مقابل اتحادی افواج کے مقابلے میں آگے چل کر جوتقریباً چار دہا ئیوں کے بعد حکمت عملی اختیار کی تھی اسی طرح کی حکمتِ عملی ابن سعود نے بھی اختیار کی انہوں نے ہزاروں سال سے موجود صحرا کی قوت کو اپنے ہتھیار میں تبدیل کرنے کی ٹھانی اب اپنے سرداروں کو ایک نئی حکمت عملی کے تحت مختلف حصوں میں بٹ جانے کا اسطرح حکم دیا کہ یہ تمام فوج بہت ہی چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم ہو گئی اور اس نئی حکمت عملی کے تحت یہ تمام چھوٹے چھوٹے دستے صحرا کی وسعت میں اس طرح سے پھیل گئے کہ دشمن کے لئے یہ ممکن ہی نہ رہا کہ اس تمام فوج کو تلاش کرسکے اس کے ساتھ ہی ساتھ اس حکمت عملی کے تحت ایک جانب تو تمام دستوں کو ریاض کی جانب پوشیدہ طریقے سے سفر کرنے کا حکم دیدیا گیا اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا کہ جہاں بھی دشمن کی افواج نظر آئیں ان کا مقابلہ کیا جائے زیادہ تر اپنے دشمن پر گوریلاافواج کی مانند حملے کیئے جائیں کہ حملہ کرنے کے بعد حملے کی کامیابی کے بعد جس طرح تیزی کے ساتھ حملہ کیا جائے اسی طرح تیزی کے ساتھ ہی صحرا کی وسعت میں پوشیدہ ہو جائیں ایک جگہ جم کر مقابلہ اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک دوسرے احکامات نہ ملیں یہ نئی جنگی حکمت عملی جہاں سعودی افواج کے لئے کامیابی کا باعث بنا وہیں پر ان کے دشمن ابن متعب کے لئے باعثِ پریشانی بھی تھا کیونکہ ان کا دشمن ان کی نظروں سے پوشیدہ ہو چکا تھا اب وہ کس دشمن کا مقابلہ کرتے؟ ان کے لئے یہ حیران کن سوال پیدا ہو چکا تھا ؟ خود ابن متعب نے اس صورتحال کے بارے میں سوچا تک نہ تھا اور نہ ہی اس نے اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی تیاری کی تھی اب جب کہ ان کا دشمن ان کو ہر طرح کا نقصان پہنچا رہا تھا ابن متعب کی افواج کے لئے یہ ممکن ہی نہ رہا تھا کہ اپنے اس سب سے بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی قسم کاکوئی جواب دے سکیں جس وقت وہ میدانِ جنگ میں اتر رہیں تھیں اس و قت ان کے سامنے واضح اور صاف ہدف تھا مگر اب تو کوئی ہدف نہیں تھا ؟ ایک جانب توان کو دشمن کی جانب سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا تھا دوسری جانب ان کا دشمن ان کی نظروں سے روپوش ہو چکا تھا جس کی وجہ سے اب ان کے لئے یہ ممکن ہی نہ رہا تھا کہ وہ کوئی جوابی حملہ کرسکیں ۔
ایک موقع پر اس صحرائی جنگ کے دوران جب کہ ا بن سعود کے ہمراہ صرف دوسوسے کم سپاہی تھے اور سو اونٹ اور دس گھوڑے تھے جب کے صرف دس سردار تھے اس وقت یہ چھوٹا سا قافلہ دن کو چھپ کر اور رات کو سفر کرکے دشمن کے محاصرے کو توڑ کر ریاض کی جانب بڑھنے کی کوشش کررہا تھااس مقصد کے لئے انہوں نے طے کیا تھا کہ دشمن کے مورچوں کے درمیان سے ہی گزرا جائے اس وقت اچانک یہ قافلہ راستہ بھٹک کر ابن بتعب کے کیمپ کے سامنے پہنچ گیا صرف ریت کا ایک ٹیلہ ہی ان کے اور ابن متب کے درمیان تھا جس پر چڑھ کر ابن سعود نے اپنے دشمن ابن متعب کے سوئے ہوئے لشکر کا جائزہ لیا ابن سعود کے ساتھیوں نے اس وقت شہزادے کو مشورہ دیا کہ قبل اس کے کہ ابن متعب کی افواج کو ان کے بارے میں کسی طرح کی کوئی آگاہی حاصل ہو وہاں سے فوراً ہی روانہ ہو جائیں کیوں کہ دشمن کی ان افواج کا مقابلہ کسی بھی طرح سے اس وقت ممکن ہی نہیں ہے مگر ابن سعود اس وقت کسی اور انداز میں سوچ رہے تھے وہ اپنے دشمن پر شب خون مارنے کی پلاننگ کر رہے تھے ان کی رائے کے مطابق اس وقت یہ بھر پور موقع تھا کہ ابن متعب کی افواج پر حملہ کیا جائے مگر ان کے ساتھیوں کے نزدیک یہ منصوبہ دانشمندی کیخلاف تھا ایک ساتھی نے اس موقع پر کہا کہ اے شہزادے اگر تم کھو گئے تو ہر چیز کھو جائے گی گویا ان کے ساتھی نے ان کو ان کے اس فیصلے کے مضمرات سے آگاہ کرنا چہا مگر ابن سعود نے اسی وقت اپنی نئی حکمت عملی طے کرلی تھی کہ اس موقع کا کس طرح سے فائدہ اٹھایا جائے؟شہزادے نے اپنے اس ساتھی کو اپنے سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ دیکھو اس وقت ہمارا دشمن ہماری موجودگی سے بالکل ہی غافل ہے اور یہ حقیقت تھی کہ ابن متعب کو اپنی قوت پر اس قدر غرور اور بھروسہ تھا کہ اس نے یہ سوچا ہی نہ تھا کہ اس کے کیمپ پر کسی طرح کا کوئی حملہ ہو سکے گا اس لئے اس نے رات کے اوقات میں اپنے کیمپ کے دفاع کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں کیا تھاجب کے یہ کرنے کا کام تھا کہ اپنے کیمپ کے ارد گرد حفاظت کا انتظام کیا جاتا اور اس پہاڑی پر اپنے محافظ تعینات کئے جاتے مگر ابن متعب نے اپنے غرور میں ان تمام پہلوں کو نظرانداز کردیا تھا یہ بات ابن سعود نے جائزہ لیتے وقت نوٹ کرلی تھی اور اپنے دشمن کی اس کمزوری کو بھانپ لیا تھا انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو اس وقت ہمارا دشمن بالکل بے خبر اور ہماری موجودگی سے قطعاًً ناواقف ہے میں یہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک ان سے دو دو ہاتھ نہ کرلوں ان کے ساتھیوں نے ان سے پھر التجا کی اور بتایا کہ اس وقت یہ خود کشی کے برابر ہو گی مگر شہزادے نے جواب دیا کہ میں اس وقت اس قدر شاندار موقع کو گنوانا نہیں چاہتا ہوں اور انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بتانا شروع کردیا کہ ان کا کیا منصوبہ ہے ؟ اور کس طرح سے اپنے دشمن کا مقابلہ کیا جائے گا اور اس پر حملہ کیا جائے ان کے ساتھیوں نے یہ منصوبہ سنا مگر ان کے نزدیک یہ ناقابل عمل تھا اور اس کے بدلے میں خود ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا امکان تھا اس لئے ان کے ساتھیوں نے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لئے ایک شرط رکھی کہ اگر شہزادہ اس مقام سے پیچھے ہٹ کر ایک محفوظ مقام پر چلا جائے تو وہ تمام سردار اس منصوبے پر عمل درآمد کردیں گے یہ بات اگر چے کے شہزادے کے لئے ناقابلِ عمل تھی مگر ساتھیوں کی جانب سے اس رائے کے آجانے کے بعد ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی رائے پر عمل کریں اب شہزادے اور ان کے ساتھی جو کے شہزادے کی حفاظت کی خاطر ان کے ساتھ رہ گئے تھے اس محفوظ مقام کی جانب بڑھے جو کے ان کے ساتھیوں نے شہزادے کے لئے منتخب کیا تھا جب کہ دوسرے تمام ساتھی جن کی تعداد دوسو کے قریب تھی شہزادے کے منصوبے کے مطابق دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہر حصہ ابن متعب کے کیمپ عظیم کی دونوں جانب آمنے سامنے کے ٹیلوں پر بڑی ہی احتیاط سے چڑھ گیا اور وہاں پر پہنچ کر نصف شب کے آنے کا انتظار کرنے لگا جب ان کا دشمن مکمل طور پر غفلت کا شکار ہو جاتا آدھی رات کے وقت دشمن کے کیمپ کے تمام الاؤ بچھ گئے اور ہر طرف مکمل طور پرخاموشی چھا گئی۔تو ایک دستہ خاموشی کے ساتھ کیمپ کے اندر داخل ہوگیااس وقت صرف ایک روشنی کی مدھم سی لو نظر آرہی تھی وہ سب کے سب اس روشنی کی جانب لپکے جب وہ روشنی کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا یہ موم بتی کی روشنی ہے جو کہ ایک خیمے کے اندر سے آرہی ہے اچانک ہی ایک شخص خیمے سے باہر نکلا حملہ آور فوراً ہی اپنی اپنی جگہ منجمد ہو گئے لیکن اضطراب میں ایک سپاہی کے ہاتھ سے شہزادے کا جھنڈا چھوٹ گیا جس سے ان گھنٹیوں اور گھنگرووں کی آواز پیدا ہوئی جو جھنڈے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے جوآدمی خیمے سے باہر آیا تھا، اس نے ان کی طرف منہ کرکے کہا الفریج یہ راستہ نہیں ہے الفریج کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ وہ الرشید متعب کا علم بردار ہے اور دوسرے آدمی کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ وہ ابن سعود کا علم بردار ہے اور دوسرے اس آدمی کی شاہانہ آواز کا لہجہ بظاہر ایسا تھا جیسے مالک اپنے ملازم سے مخاطب ہوخیمے کے پاس سوائے الرشید کے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا جس نے غلطی سے شہزادے کے علم بردار کو اپنا آدمی تصور کر لیا تھا اس وقت ان تمام کے دل تیزی کے ساتھ دھڑکنے لگے یوں لگ رہا تھا کہ ان کے سینے پھٹ جائیں گے اور ان کے دل باہر آجائیں گے یہ حیرت ناک لمحہ تھا ان کا بدترین دشمن ان کے پاس آگیا تھا یہ تو انہوں نے سوچا ہی نہ تھااچانک وہاں پر چھائی ہوئی خاموشی کو ایک آواز نے ختم کردیا ان میں سے ایک سپاہی نے اپنے دیگر ساتھیوں کو کہا کہ اے لوگوں تم جس متعب الرشید کی تلاش میں ہو وہ یہاں ہے حملہ آور الرشید پر جھپٹ پڑے جو اپنی ننگی تلوار سے دلیرانہ مدافعت کرنے کے باوجودمغلوب ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اس ہنگامے نے پورے کیمپ کو جگا دیا جس کے بعد ان حملہ آوروں کا زندہ بچ جانا بھی مشکل نظر آرہا تھا مگر عین اسی وقت دوسرے دستے نے جو کے کیمپ کے باہر اپنے مورچے مضبوط کرچکا تھا اور بہتر پوزیشن پر پہنچ چکا تھا۔
باہر سے کیمپ پر حملہ کرنا شروع کردیا اس حملے میں اس دوسرے دستے نے بہت تیزی کے ساتھ حملہ کیا اس کا ساتھ کیمپ میں موجود سعودی فوجیوں نے بھی دیا جس کے نتیجے میں کیمپ میں موجود الررشیدی افواج کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بہت بڑے دشمن نے حملہ کردیا انہوں نے اپنے دشمن کا جواب دینا شروع کردیا مگران کے سامنے کوئی دشمن ہی نہ تھا اندھیری رات میں وہ اپنے ہی ساتھیوں کو ہلاک کرنے لگے جب کے ان کا دشمن ان کے مقابلے میں انتہائی حقیر اور ناقابلِ بیان تعداد میں تھا جب کے سپاہی اور افسر اپنے سالار کو تلاش کررہے تھے جو کے اس دنیا میں ہی نہیں رہا تھا اس صورتحال میں ان کے سامنے ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ اس بڑے اور انجانے دشمن سے اپنی جان کو بچانے کے لئے کیمپ سے باہر بھاگ جائیں سو انہوں نے ایسا ہی کیا متعب کی فوج کی اکثریت اس اچانک حملے کا مقابلہ نہ کر سکنے کے باعث اور دشمن سے خوف زدہ اور دہشت زدہ ہو کر فرار ہو گئی اس افراتفری میں سعودی فوجی بغیر کسی نقصان کے باآسانی اس کیمپ سے نکل جانے میں کامیاب ہو گئے اس کے ساتھ وہ الرشید کی مہر دار انگوٹھی اس کی موت کے ثبوت کے طور پر لے

گئے تاکہ شہزادے کو دکھا سکیں۔