جدوجہد کا نیا موڑ




اُنیسویں صدی کی ابتدا میں موجوہ سعودی عرب کئی ریاستوں میں تقسیم تھا ان میں سے ایک حجاز کی ریاست تھی جس پر ہاشمی خاندان کی حکومت تھی جس کہ سربراہ شریف مکہ تھے دوسر ی بڑی ریاست نجد تھی نجد کی ریاست پر رشیدی خاندان نے ترکوں اور حجاز کے ہاشمی خاندان کی مددسے سعودی خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ کرکے اپنی حکمرانی قائم کردی تھی اس کے علاوہ بے شمار چھوٹے بڑے قبائل تھے جو کے اپنے سرداروں کے ماتحت تھے اور دنیا کی کسی بھی حکومت سے آزاد تھے ان کی حدود میں ان کا اپنا قانون اور نظام نافذ تھا نجد کے مرکز اور سعودی عرب کے موجودہ دارلحکو مت ریاض پر رشیدی خاندان کے محمد ابن رشید نے1890میں اپنے مرکز حائل سے فوجوں کو اکھٹا کرکے ریاض پر حملہ کرکے شاہ عبدالعزیز ابن عبدالرحمان ابن سعود کے والد عبدالرحمان ابن سعود سے چھین لیا تھا اس کے بعد سعودی خاندان کو نجد سے جلا وطنی اختیار کرنا پڑی اس جلا وطنی کے نتیجے میں سعودی خاندان پہلے خلیج فارس میں واقع جزیرے بحرین پر پناہ لینے پر مجبور ہو گیا اس وقت بحرین کے حاکم شیخ عیسیٰ بن خلیفہ حکمران تھے جنہوں نے سعودی خاندان کا بہت پرتپاک استقبال کیا مگر سعودی خاندان اپنی کھوئی ہوئی حکومت کی واپسی کے لئے دوبارہ سعودی عرب میں ربع الخالی کے مقام پر پہنچا یہاں پر سعودی خاندا ن نے کچھ عرصہ قیام بھی کیا مگرپھر دنیا کے اس ظالم ترین صحرا میں کچھ مدت گزار کر یہ خاندان کویت کے حکمران کے پاس چلا گیا جہاں سے کویتی حکمرانوں کی مدد سے اگر چے کہ اپنے کھوئے ہوئے مرکز کو حاصل کرنے کی کئی بار کوشش کی مگر اس میں ناکام رہا پھر نوجوان عبدالعزیز ابن عبدالرحمان ابن سعود نے ایک کامیاب حملے کے نتیجے میں ریاض پر قبضہ کرکے
                                  
       اب آگے پڑھیے شاہ عبدالعزیز نے اب اپنی روائتی حکمتِ عملی کے تحت ابنِ متعب کا مقابلہ شروع کردیا جس کے نتیجے میں الدائم کے مقام پر ابنِ متعب کو بھرپور شکست حاصل ہوئی جس کے بعد اس نے ہر محاز پر شاہ عبدالعزیز کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اس مقصد کی خاطر ابنِ متعب نے ابنِ سعود کے امداد کے راستوں یعنی کویت او ر سعودی عرب کی سرحدوں پر اپنی افواج کو جمع کر لیا ۔
                   خاندان رشید کی حکومت کے خاتمے کے باوجود ابن سعود کی حکومت ابھی تک جزیرۃ العرب کے  محدود حصے یا نجد تک ہی محدود تھی جیسا کہ اس سے قبل یہ بتایا جاچکا ہے کہ مکہ کے ہاشمی خاندان کی حکومت صرف مکہ مدینہ اور جدہ اور ان شہروں کے گرد نواح تک ہی محدود تھی مگر چونکہ وہ حرمین شریفین کے متولی اور مجاور تھے اس لئے عالم اسلام میں ان کے لئے خصوصی طور جذبات پائے جاتے تھے جبکہ اس حوالے سے عالمِ اسلام کے تمام علاقوں سے تحفے اور تحائف اور نذرانوں کی بہت بڑی مقدار بھی ملتی رہتی تھی اس کے ساتھ حجاج کے آنے سے جو آمدنی ہاشمی خاندان کو میسر ہوتی تھی اس کا مقابلہ عرب کا کوئی بھی حکمران خاندان نہیں کرسکتا تھا جب کہ اس حوالے سے تمام بیرونی دنیا سے ان کے تعلقات قائم ہو چکے تھے خصو صاً اس وقت بر صغیر کی مسلم ریاستوں کے حکمرانوں سے گہرے روابط قائم تھے جن کی جانب سے باقائدہ وظائف ہاشمی خاندان کو وصول ہوتے تھے جو کہ ہاشمی خاندان کی دولت میں اضافہ کا مسلسل سبب تھے اس لئے بیرونی دنیا میں ترکی سمیت تمام عالمِ اسلام ہاشمی خاندان کی ہی قیادت کو تسلیم کرتا تھا مگر اب سلطان ابن عبدالعزیز ان کی ریا ست اور حکمرانی کے لئے مسلسل خطرے کا باعث بن چکا تھا جو کہ ابھی تو معمولی خطرہ تھا مگر آنے والے وقتوں میں ابن سعود ہی ہاشمی خاندان کے لئے انتہائی خطرے کاباعث بنا ان کا دعویٰ تھا کہ وہ تمام عرب کے بادشاہ ہیں۔
                                           ابنِ سعود کے سامنے اپنے قدیم دشمن ابنِ رشید کی ریاست اور اس کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد کئی طرح کے مسائل تھے ان میں سب سے اہم ترین مسئلہ صحرائی قبائل کی متلون مزاجی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل تھے صحرائی قبائل کے لئے یہ آسان ترین کام تھا کہ کسی بھی وقت اپنی وفاداری تبدیل کردیں چاہے اس سے قبل انہوں نے اپنے سابقہ حکمران یا سردار کے لئے کتنی بڑی ہی قربانی نہ دی ہو وہ یہ سب کچھ بھول بھال کر نئی نئی وفاداریاں استوار کرلیتے یہ ان کے لئے نہ تو باعثِ شرم تھا اور نہ ہی باعث آر تھی ہاں ان قبائل کی سب سے بڑی آرزو تھی کہ کسی نہ کسی طرح ان کا سامنا نئی جنگ سے ہو جائے یہ اس کے لئے ہمہ وقت آمادہ اور تیار رہتے چاہے اس کے لئے ان کو کسی بھی طرح کی کوئی قربانی کیوں نہ دینا پڑ جائے اس مسئلہ کے حل کے لئے سلطان ابنِ سعود نے سب سے پہلے توجہ دی سلطان ابن سعود نے ان قبیلوں کو حسن خوبی کے ساتھ اس امر کا احساس دلانا شروع کیا کہ اپنی خامیوں کی جانب توجہ دیں اس مقصد کی خاطر سلطان ابن سعود نے ان کے اندر اسلامی تعلیمات کو عام کرنا شروع کیا سلطان کے مبلغ قبیلہ در قبیلہ جاتے اور ان کو احساس دلاتے کہ اسلامی تعلیمات میں ہی ان کے لئے راہ نجات ہے وہ ایسی تمام رسوم اور طرز عمل کو ترک کردیں جو کہ اسلام کے خلاف ہیں ان اقدام کے نتیجے میں ان قبائل کے اندراسلامی احکامات اور وعدے کی پاسداری کا احساس پیدا ہونے لگا اس کے ساتھ ایسی رسومات جو کہ اسلام کے خلاف تھیں ان کے خاتمے کی مہم کا آغاز ہونے لگا اسلامی تعلیمات کے عام ہو جانے کے نتیجے میں صحرا میں بسنے والے قبائل کے اندر نظم نسق پیدا ہونے لگا اس کے ساتھ قانون پر عمل درآمد بھی ہونے لگا مگر اس کے باوجود سلطان ابن سعود کے لئے ابھی مسائل کا پہاڑ موجود تھا جن کو عبور کرنا بہت ہی ضروری تھا ابن سعود کے لئے بیرونی مشکلات کے ساتھ ہی اب اپنو ں نے بھی مسائل پیدا کرنا شروع کردئیے جس کی ابتدا سلطان کے اتحادی مطیر قبیلے کے سردار فیصل الدویش نے بغاوت کا علم بلند کرکے کی۔ فیصل الدویش نے مطیر قبائل کی افواج کو ساتھ لے کر سلطان ابن سعود کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی جس کا سلطان نے انتہائی بہادر اور ہوشیاری کے ساتھ مقابلہ کیا مئی 1907ء میں مطیر قبائل کے سردار فیصل الدویش کو مجمعہ کے مقام پر سلطان ابنِ سعود نے شکست دی جس کے بعد سلطان ابنِ سعود نے فیصل الدویش کو معاف کردیا مگر اس شکست کو فیصل الدویش بھلا نہ سکا اور اس نے دوبارہ بغاوت کی اور دوسری مرتبہ بھی البریدہ کے مقام پر سلطان ابنِ سعود کے ہاتھوں شکست کھائی مگر اس کے باوجود سلطان ابنِ سعود کو کئی چھوٹی بڑی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے سربراہوں کو شکست دینے کے بعد سلطان ابنِ سعود نے روایتی عفو درگزر سے کام لیتے ہوئے معاف کردیا حالانکہ بغاوت کی روایتی سزا موت تھی اور سلطان چاہتے تو اس بات کا سہارا لیتے ہوئے ان باغی سرداروں کو سزا دیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اس میں بھی سلطان نے حکمت عملی سے کام لیا غدار قبائلی شیوخ کو شکست دے کر معاف کردینے سے شلطان ابن سعود کے لئے سعودی قبائل میں احترام کے جذبات پیدا ہوئے کیونکہ یہ انہونی سی بات تھی کہ فاتح اپنے مغلوب باغیوں کو معاف کرکے دوبارہ وہ مقام دے دے اسی طرح بریدہ کے گورنر محمد ابا الخیل کا معاملہ ہے جس کو ایک مرتبہ شکست دینے کے بعد سلطان نے اس کے عہدے پر قائم رکھا مگر ابالخیل نے دوبارہ بغاوت کی جس پر سلطان ابن سعود نے اس کو دوبارہ سے شکست دی مگر قبل اس کے کہ سلطان ابن سعود اباالخیل کے انجام کے بارے میں کسی طرح کا کوئی فیصلہ کرتے اباالخیل نے راہ فرار اختیار کی اور عراق بھاگ جانے میں اپنے لئے عافیت محسوس کی کہ جان ہے تو جہان ہے اس دوران اندرونی اختلافات اور بغاوتوں کا حال سن کر ابن رشید کے خاندان کے ایک فرد زافل ابن سبہان( جو کہ حائل کا حاکم بنا تھا) نے موقع غنیمت جان کر ابنِ سعود کے خلاف بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کی کوشش کی اس حملے کو اشعلی کے مقام پر سلطان ابنِ سعود نے پسپا کردیا۔
مگر ابھی عشق میں امتحان اور بھی ہیں
سعودی خاندان کے قدیم دشمن خاندان رشید کی مسلسل شکست کے نتیجے میں جہاں نجد اور وسطی عرب کے علاقوں پر سلطان ابنِ سعود کی حکمرانی قائم ہوتی چلی گئی وہیں پر جزیرۃ العرب کی حکمرانی کے دعویداروں کے نزدیک ان کی حکمرانی کا دشمن اب سلطان ابنِ سعود بن چکا تھا جس کا سد باب کرنا ان کے لئے بہت ہی ضروری ہو چکا تھا اس لئے اب جدہ، مکہ اور مدینہ کے حکمران ہاشمی خاندان کے سردار شریف مکہ نے اپنا سب سے بڑا رقیب اور دشمن سلطان ابن سعود ہی کو تصور کرنا شروع کردیا اس مقصد کے لئے شریف مکہ نے ترکوں کی جانب سے مقرر کردہ گورنر کے کان بھرنا شروع کئے جس کے نتیجے میں ترکوں کی جانب سے شریف مکہ کی امداد کے لئے افواج بھیجیں گئیں مگر سلطان ابنِ سعود اس صورت حال اور اس کے پس منظر کو بخوبی جانتے تھے اس لئے انہوں نے شریف مکہ کی جانب سے کی جانے والی ہر طرح کی چھیڑچھاڑ کو مکمل طور پر نظرا نداز کیا کہ وہ خلافت اسلامیہ کے خلاف کسی بھی طرح کی کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
                       مگر شریف مکہ نے1911ء میں ترکوں کے ساتھ مل کر ایک مہم ابنِ سعود کے علاقے میں مدینہ منورہ سے ایک سودس میل کے فاصلے پر القویعیہ کے مقام پر بھیجی یہ علاقہ سلطان ابنِ سعود کی مملکت کا حصہ تھااس مقام پر سلطان ابنِ سعود کے چچا زاد بھائی سعد کے ساتھ شریف مکہ کی افواج کا مقابلہ ہوا کم افواج کے باعث سلطان ابن سعودکے چچا زاد بھائی شریف مکہ کی افواج کے سامنے شکست کھانے پر مجبور ہو گئے شریف مکہ کی افواج نے سعد کو گرفتار کرلیا جس کی رہائی کے عوض سلطان ابن سعودکو اپنے علاقے القصیم کو شریف مکہ کے حوالے کرنا پڑا اس وقت سلطان ابن سعود اپنے چچا زاد بھائی کو رہا کرانے میں اگرچے کامیاب ہو گئے مگر یہ ایسی شکست تھی جس کو خاندان سعود اور سلطان ابنِ سعود فراموش نہیں کرسکے سلطان ابنِ سعود نے اس واقعہ کے بعد سعودی ریاست کے دفاع کے لئے باقائدہ تیاریاں کرنا شروع کردیں اب انہوں نے اس قدرتی دفاع کی جانب خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جو کہ عرب کے صحراوں میں بکھرے پڑے تھے یعنی عرب قبائل کی جانب یہ صحرائی قبائل اگر چے کہ ایک قوت ضرور تھے مگر ان کی پرجوش آزاد منشی ، جنگ پسندی اور تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی وفاداری کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ یہ ایک کڑی یا دفاعی فوج بن کررہ جاتے مگر سلطان ابن سعود نے ان تمام کمزوریوں کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی ان قبائل کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا نے کی ٹھانی یہ قبائل اگرچے کہ اپنے معاضی کی وجہ سے سلطان ابن سعود کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے مگر ان کا استعمال کرنا اور ان کو جمع کرنا ایسا ہی تھا کہ جنگل میں شیر اور بکری کو ایک جگہ پر جمع کردینا مگر یہ مشکل کام سلطان ابن سعود نے انجام دیا قبائل کی اس فوج کو اخوان کا نام دیا گیا یہ قبائل جو کہ لڑنے میں بہت ماہر تھے اس فوج کے قیام کے ساتھ ہی ایک سال کے اندر سلطان ابن سعود کے پاس ایک بڑی سرفروش اور طاقت ور فوج تیار ہوگئی یہ لوگ اسلام کی خاطر سعودی عرب سے ہر طرح کی برائی کو مٹانے کے لئے آمادہ تھے ان کی جدوجہد کا محور معاشرے کی اصلاح اور تعمیر تھا یہ لوگ سلطان ابن سعود پر اندھا اعتقاد رکھتے تھے ان پر اس حوالے سے اعتماد کیا جاسکتا تھا کہ یہ سلطان ابن سعود کے وفادار ہوں گے اور اعلانِ جنگ کے وقت سلطان ابن سعود کی آواز پر اکھٹے ہو جائیں گے سلطان ابن سعود کی تیار کردہ قبائل کی فوج اخوان کو جلد ہی پہلی فتح حاصل ہوئی 1913ء میں سلطان ابنِ سعود نے فیصلہ کیا کہ اب اپنے دیرینہ دشمن( جس کی پشت پناہی ترک کر رہے تھے ) کے خلاف کاروائی کرے جلد ہی ایسا موقع مل گیااخوان کے دستوں نے ھفوف پر شب خون مارا یہاں پر بارہ سو ترک فوجی موجود تھے یہ سب کے سب بے خبری میں پکڑے گئے ان میں سے کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکا مگر سلطان ابنِ سعود نے اسلامی اخوت سے کام لیتے ہوئے ان تمام ترکوں کے ہتھیار ان کے حوالے کرتے ہوئے شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی جہاں سے وہ بحرین گئے اور بحرین سے بحری جہاز کے زریعے وہ ترکی کی جانب روانہ ہو گئے الاحسا میں موجود ترکی افواج نے الاحسا کا شہر بھی اخوان کے حوالے کردیا اس طرح ایک ماہ سے بھی کم مدت میں سلطان ابن سعود نے کویت کی سرحد سے لے کر قطر کے شمال تک پھیلے ہوئے ایک اور صوبے کا اقتدار حاصل کرلیا جس میں کسی بھی طرح کی کوئی لڑائی کی ضرورت پیش ہی نہیں آئی ھفوف میں سلطان ابن سعود نے نیا گورنر عبداللہ ابن جلوی کو نیا گورنر مقرر کیا جس کے نیزے کی ضرب نے گیارہ سال قبل ریاض میں سعودی مملکت کی ابتدا کا اعلان کیا تھا۔
1914ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا پہلی عالمی جنگ میں ترک خلافت نے جرمنی و آسٹریا کے ساتھ مل کر اتحادی قوتوں برطانیہ ،فرانس اورہالینڈ کے خلاف لڑائی کی ابتدا کی اگرچے کہ جنگ شروع ہونے سے قبل ترکی کی خلافت نے بہت کوشش کی کہ اس جنگ میں وہ غیر جانبدار کردار ادا کریں مگر اتحادی قوتوں کی کوششوں کی وجہ سے ترک خلافت کو جرمنی اور آسٹریا کے ساتھ مل کر اس جنگ میں کودنا پڑا عثما نی خلافت کے خلاف حجاز کے حکمران شریف مکہ نے انگریزوں کا ساتھ دیا مشہور عرب بغاوت جس میں لارنس آف عربیہ نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا حجاز میں ہی ہوئی جس میں شریف مکہ کی افواج نے لارنس آف عربیہ کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی اس تما م بغاوت میں سلطان ابنِ سعود نے خاموشی اختیار کی مگر اس دوران ترکوں نے سلطان ابنِ سعود کے دیرینہ مخالف خاندان رشید کے شہزادے سعود ابن عبدالعزیز متعب بن رشید کی امدا د کرکے سلطان ابنِ سعود کے لئے مشکلات پیدا کیں مگر سلطان ابن سعودنے فراست کے ساتھ اس معاملے کو نمٹایا اور اس بے معنی جنگ میں کامیابی حاصل کی مگر یہ جنگ ایک اعتبار سے سلطان ابن سعود کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئی کہ جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد جب ترکوں اور ان کے اتحادیوں کو شکست ہوئی تو فاتح انگریزوں نے اس حوالے سے سلطان ابن سعود کے معاملات میں چشم پوشی اختیار کی اسی دوران انگریز مشن کا سربراہ مشہور مورخ ہیری سینٹ جان فیلبی سلطان ابن سعود سے ملنے کے لئے آیا مگر ملاقات سے قبل وہ شریف حسین سے ملنے کے لئے حجاز چلا گیا جہاں پر شریف مکہ نے اسے سلطان ابنِ سعود سے ملاقات کرنے سے روک دیا یوں اس طرح سلطان ابنِ سعودانگریزوں کی جانب سے دی جانے اس متوقع امدادسے محروم رہ گئے جس کے بارے میں اطلاعات ملی تھیں کہ انگریز سلطان ابنِ سعود کو فراہم کریں گے
 اسی دوران سلطان ابنِ سعود نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے مخالف خاندان رشید کے آخری ٹھکانے جبل شمر کو بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اس طرح انیس (19) سال کی جدوجہد کے بعد سلطان ابنِ سعود خاندان رشید کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیان ہو گئے خاندان رشید کا آخری حکمران عبداللہ ابن متعب 1950ء میں ریاض میں انتقال کرگئے یوں یہ باب بھی ختم ہوگیا خاندان رشید کی حکومت کے خاتمے کے بعد سلطان ابن سعود کو وسطی عرب کا حکمران وسطی عرب کی حدود میں موجود تمام قبائل نے تسلیم کرلیا اس سلسلے میں ریاض میں ایک منعقد ہونے والی ایک تقریب میں سلطان ابنِ سعود کو باقائدہ سلطان کا خطاب دیا گیا اس کے ساتھ امام نجد کا خطاب بھی دیا گیا۔
پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا چونکہ مکہ کے شریف حسین نے انگریزوں اور لارنس آف عربیہ کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی تھی اس لئے مکہ کے شریف حسین اب یہ تصور کرنے لگے تھے کہ وہ تمام عرب کے حکمران ہیں اس تصور کے ساتھ مکہ کے شریف حسین نے نجد اور یمن سمیت تمام عرب کی حکمرانی کا دعوی ٰ کرنا شروع کردیا مگر یہ بات خود شریف حسین سمیت کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ تمام عرب کی حکمرانی کاثبوت کس طرح سے فراہم کیا جائے گا ؟ شاید ان کے دل میں یہ بات ہو چونکہ انہوں نے لارنس آف عربیہ کا ساتھ دیا ہے اس لئے اب دنیا کی عالمی طاقت برطانیہ اس دعویٰ کو تسلیم کرلے گی جس کے بعد ان کے لئے آسان ہوجائے گا کہ وہ تما م عرب پر حکمرانی کرسکیں اس حوالے سے مکہ کے شریف حسین نے تمام عرب کے قبائلی سرداروں کو شاہانہ انداز میں اور بڑے طمطراق کے ساتھ خطوط لکھے کہ اب تما م عرب کا حکمران وہ خود (شریف حسین ہیں ) اور اس نے ایک عرب مملکت بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کا سربراہ وہ خود ہوگا اس کے ساتھ شریف حسین نے لکھا کہ تمام عرب مجھے عرب کا حکمران تصور کرلے اس کا جواب سلطان ابنِ سعود نے انتہائی فراست کے ساتھ دیااور شائستگی کے ساتھ لکھا۔
سلطان ابن سعود کی جانب سے شریف مکہ کو دیا گیا جواب سفارت کاری کے اصولوں کے مطابق انتہائی مناسب جواب تھا اس خط کے زریعے کم ازکم شریف حسین کی حکومت کو حجاز کی حدود کے اندر تسلیم کیا گیا تھا اس کے ساتھ ہی ساتھ پیش کش بھی موجود تھی کے پڑوسیوں کی مانند رہ کر اپنے اختلافات کو طے کرلیا جائے اگر شریف حسین کے اندر فراست موجود ہوتی تو وہ اس خط میں کی گئی پیش کش کو تسلیم کرتا اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرلیتا مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور اس جواب پر انتہائی برہمی کا اظہار کیا اس کے ساتھ سلطان ابن سعودِ کو سبق دینے کی ٹھانی۔
مکہ سے ایک سو دس میل شمال میں واقع خرمہ کے نخلستان پر شریف مکہ نے دعویٰ کیا کہ یہ اس کا علاقہ ہے جب کے خرمہ کے عوام نے خود ہی فیصلہ کرتے ہوئے سلطان ابنِ سعودکا ساتھ دینے کا اعلان کردیا تھا اور کئی برس قبل یہ علاقہ سعودی حکومت کا حصہ بن چکا تھا شریف حسین نے دو مرتبہ اپنی افواج خرمہ کے نخلستان پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجیں مگر سلطان ابنِ سعود کی افواج نے ان کے حملے کو بری طرح سے پسپا کردیا 1919ء میں اس پر شریف حسین نے تلملا کر اپنے بیٹے عبداللہ کی قیادت میں تیس ہزار کا ایک لشکر تیار کیا اس لشکر میں لارنس آف عربیہ کی تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ اور وہ فوجی بھی شامل تھے (جن کی تربیت ترکوں نے کی تھی جو ترکی حکومت کے خاتمے کے بعد شریف حسین کی فوج میں شامل ہوگئے تھے) شریف حسین نے اپنے بیٹے عبداللہ کو ہدایت کی کہ نہ صرف خرمہ کے نخلستان پر قبضہ کرلینا


 بلکہ فتح حاصل کرنے کے بعد روکنا مت بلکہ آگے بڑھ کر تمام نجد اور ریاض پر بھی قبضہ کرلیا جائے تاکہ سلطان ابن سعود کی سعودی مملکت کا خاتمہ مکمل طور پر ہو جائے عبداللہ کے پاس ایسی فوج تھی جس کے پاس اس وقت کے اعتبار سے ہر طرح کا جدید اسلحہ موجود تھا اور صحرائی جنگ کے اعتبار سے غیر معمولی طور پر مسلح تھی مگر اس کے باوجود عبداللہ نے سلطان ابنِ سعود کا مقابلہ کرنے میں کسی جلد بازی کا سہارا نہیں لیا بلکہ اس نے اپنی فوج کے دستوں کو تربہ کے باہر جمع کیا اس کے ساتھ ایک جانب تو اپنے لئے ایک مضبوط قلعہ بندی تعمیر کروائی دوسری جانب سلطان ابنِ سعود کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید افواج اور اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا جس کہ نتیجے میں عبداللہ کی افواج مزید مضبوط ہونے لگی مگر یہ بات طے تھی کہ اس تمام تر قوت اور اسلحہ کے ساتھ عبداللہ اور اس کا باپ سلطان ابنِ سعود کی مانند جنگی مہارت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی وہ نجد کے قبائل کے طریقے جنگ کے بارے میں کسی طرح کی واقفیت رکھتے تھے اس کے ساتھ ہی ساتھ عبداللہ جو کہ اس فوج کا کمانڈر انچیف تھا کبھی بھی اچھا سپاہی نہیں رہا تھا اس لئے انہوں نے جنگ کے سب سے بڑے ہتھیا ر جاسوسی کی جانب کسی بھی طرح سے کوئی توجے ہی نہیں دی اور نہ ہی اپنے دشمن کی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کے لئے کوئی نظام قائم کیا۔
عبداللہ اور اس کے والد اگر چے کے عرب تھے مگر ان کا تعلق کسی بھی طرح سے دیہات سے نہیں تھا بلکہ وہ شہری علاقے کے رہنے والے تھے ان کو عرب کے بدووں کے بارے میں کسی بھی طرح کی کوئی معلومات تھی ہیں نہیں اور نہ ہی وہ جانتے تھے کہ ان سے کس طرح سے نمٹا جاسکتا ہے اس لئے اپنے مرکز میں عبداللہ نے تمام افواج جمع کرلینے کے بعد سکون اور اطمنان کے ساتھ وقت گزارنا شروع کردیا کیونکہ اس کو یقین تھا کہ اس کا دشمن سلطان ابنِ سعود اس کی افواج کا مقابلہ کرہی نہیں سکتا ہے اور وہ سلطان ابنِ سعود کی افواج کو باآسانی شکست دینے کے بعد نجد پر قبضہ کرلے گا اور یوں سعود ی خاندان ایک بار دوبارہ سے جلاوطن ہو کر کویت یا کسی دوسرے پڑوسی ملک میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے گا
                       دوسری جانب مگر سلطان ابنِ سعود شریف مکہ کی جانب سے کی جانے والی ان تمام تدابیر سے مکمل طور پر باخبر تھے حسبِ سابق ایک جانب تو انہوں نے نوزائدہ سعودی مملکت کے دفاع کی بھر پور تیاری کی تھی تو وہ دوسری جانب اس منسوبہ بندی میں مصروف تھے کہ دشمن کے لئے اپنی مرضی سے ایسا میدان جنگ اور محاز منتخب کریں جو کہ دشمن کے لئے حیران کن ثابت ہوکیونکہ سلطان ابنِ سعود جنگ کے اس حربے سے بخوبی واقف تھے کہ اپنے دشمن کے لئے ایسا حربہ استعمال کیا جائے جو کہ دشمن کے لیئے حیرانی کا باعث ثابت ہو دوسری جانب دورانِ جنگ اس طرح کی پلاننگ کی جائے جس کے بارے میں دشمن تصور بھی نہ کرسکے اس طرح کے حربے سلطان ابنِ سعود اس سے قبل کی جنگوں کے دوران بخوبی استعمال کرچکے تھے اور ان کے استعمال سے بخوبی واقف تھے اس لئے سلطان ابنِ سعود نے اس وقت کی طاقت ور عرب ریاست حجاز کی افواج سے نمٹنے کے لئے جہاں روایتی اسلحہ کاسہارا لیا وہیں پے عرب سیاست اور قبیلوں کی روایت اور سیاست سے مکمل طور پر آشنا سلطان ابنِ سعود نے اپنے دشمن کو مات دینے کے لئے ایک نیا حربہ استعمال کیا جو کہ شریف مکہ کا ایک رشتہ دار عتیبہ قبیلے کا سردار خالد ابن لوئی کی صورت میں تھا خالد ابن لوئی کی توہین بھرے دربار میں امیر عبداللہ نے کی تھی جس کے بعد عتیبہ قبیلے کا سردار خالدابن لوئی مکہ چھوڑ کر سلطان ابن سعود کے پاس نجد آگیا تھا خالد ابن لوئی کا عتیبہ قبیلہ مکہ اور نجد کے درمیان آباد تھا اور بہت ہی بڑی قوت کا مالک تھا امیر عبداللہ کی افواج کو اگر نجد پر حملہ کرنا پڑتا تو اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ خالد ابن لوئی کے عتیبہ قبیلے کی حدود سے گزرتا اور اگر عتیبہ قبیلہ امیر عبداللہ کی افواج کو گزرنے کی اجازت نہیں دیتا تو پھر یہاں امیر عبداللہ کے لئے انتہائی مشکل کام تھا کہ اپنی افواج کو بغیر کسی خطرے کے سلطان ابنِ سعود اور نجد پر حملہ آور ہوسکتا ۔   زیرک ہوشیار اور ماہر جنگ سلطان ابن سعود نے اپنے بے خبر دشمن امیر عبداﷲ کی افواج کے راستے میں سب سے پہلے اسی خطرہ یا دیوار کو حائل کرنا مناسب سمجھا اور اس پر عمل درآمد کرنا شروع کردیا۔